Nain sahil by sanaya khan episode 1

 Nain sahil

Sanaya khan




Nain sahil

Sanaya khan

Epi 1


چھوٹے سے گاؤں کی اس بڑی حویلی میں رونقوں کا سماں تھا۔۔۔۔۔۔۔۔رنگوں کا میلا تھا۔۔۔ جیت کا جشن تھا


ایسا شاندار جشن جو دور دور تک نہ کبھی کسی نے سنا ہوگا نہ دیکھا ہوگا ۔۔آخر جیت بھی تو اتنی ہی بڑی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔


کئی شہروں اور ملکوں کی معروف ہستیاں اس جشن میں شامل تھی۔۔۔۔۔ہر نیوز چینل کے رپورٹر وہاں موجود تھے۔۔۔۔شاید اس وقت اس شادی سے بڑھ کر حیرت انگیز خبر کوئی نہیں ہونی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


تمام کیمروں کا رخ حویلی کے دروازے پر تھا جہاں آف وہائٹ شیروانی میں سر پر نیلا سافہ باندھے باہر منڈپ کی طرف بڑھتا اس شاہ خاندان کا وارث اس حویلی کی شان کسی ریاست کے راجا کی طرح معلوم ہوتا تھا


وہ راجا جو کوئی جنگ فتح کرکے لوٹا ہو اور فتح کی مسکراہٹ اس کے لبوں کو آزاد نہیں کر رہی۔۔۔


اس کی مغرور چال میں سرشاری تھی

اور گہری نیلی آنکھوں میں چمک ساری دنیا پا لینے کی۔۔۔۔۔۔۔


اس کے قدم منڈپ میں پڑے اور بجائے اپنی جگہ بیٹھنے کے وہ مقابل کے صوفے پر سرخ جوڑے میں سجی گھونگھٹ میں آنکھیں ڈھکے اپنی دلہن کے قریب بیٹھ گیا۔۔۔۔دوپٹے میں چھپے اس کے ہاتھ کی انگلیوں پر اپنا مضبوط ہاتھ رکھتے ہوئے لبوں کی مسکراہٹ گہری کی اور مولوی کو نکاح پڑھانے کا اشارہ دیا۔۔۔۔۔۔۔


اس کے باپ نے اپنی موچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے سینے کو مزید وسیع کیا۔۔۔۔۔۔اور ماں نے اپنے بیٹے کی بلائیں لیتے ہوئے اپنی قیمتی آنچل کو سنوارا۔۔۔۔۔


مولوی نے پڑھنا شروع کیا اور شور سکوت میں بدلنے لگا

ہر نظر اس وقت اُن دونوں پر ٹہر گئی ۔۔۔

کوئی افسوس لیے۔ کوئی حسد لیے۔ کوئی ہمدردی لیے ۔۔کوئی حیرت لیے۔۔۔۔۔۔۔۔


افسوس کے اس نے اپنے لیے ایک معمولی لڑکی کو چنا۔۔۔ افسوس کے اس لڑکی کی قسمت اسے جیتے جی جہنم میں لیے آئی


حسد کے اس نے بہتر سے بہتر رئیس سے رئیس خوبصورت سے خوبصورت لڑکی پر اس عام لڑکی کو ترجیح دی


ہمدردی کے اس کا ساتھ اس لڑکی کے لئے کسی دیو کی قید جیسا تھا۔۔۔۔۔جہاں سے اب وہ کبھی آزاد نا ہو پاتی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔



تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

کیسا لگ رہا ہے ۔۔۔۔آج پھر اسی مقام پر ۔۔۔۔۔اپنے آپ کو میرے نام کرتے ہوئے۔۔۔۔۔"

اس نے اپنے مخصوص لہجے میں اس کے قریب سرگوشی کی۔۔لہجہ مسکراتا ہوا غرور کی حدوں کو چھو رہا تھا ۔۔اس کے بے جان بے حرکت وجود میں کوئی ہلچل نہیں ہوئی۔۔۔۔۔محض دوپٹے کے پیچھے نم پلکیں جھپکیں۔۔۔۔۔۔


کہیں پھر سے وہی تو نہیں سوچ رہی ہو ۔۔۔۔ جو پچھلی دفعہ کیا تھا


اس کا رخ سامنے تھا سر ہلکا سا اس کی جانب جھکا ہوا اور لہجے میں طنز تھا لبوں پر مسکراہٹ۔۔۔۔

اپنی بات پر اس کی انگلیوں میں لرزش محسوس کرکے ہلکا سا ہنسا۔۔۔۔۔


ڈرو مت ڈارلنگ اب میں تمہارا دشمن نہیں محافظ ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہنسی اڑاتا دھیما لہجہ ۔۔۔۔۔۔اس نے دھیرے سے اپنا ہاتھ سکندر کے ہاتھ کے نیچے سے نکال کر گود میں رکھا


مولوی کے نکاح کی اجازت مانگنے پر سب اس کی جانب متوجہ ہوئے جو ہنوز چپ تھی ساکن تھی اس کی دوسری جانب کسی لڑکی نے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے اسے جواب دینے کا اشارہ کیا تو اس نے اپنے خشک گلے کو تر کیا


کہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کے تمہیں اپنی ہار قبول ہے۔۔۔۔۔۔۔

سکندر نے اس کے کان کے قریب پھر سے سرگوشی کی لیکن اس دفعہ لہجے میں زہر سی کڑواہٹ گھلی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس نے ضبط سے آنکھیں بند کرلی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆


پروفیسر شاد ابراہیم۔۔۔آپ پر مولسٹیشن کا الزام لگا ہے۔۔اس لیے آپکو اس کالج سے ڈس مس کیا جاتا ہے۔۔۔۔

اس کے سن ہوتے دِماغ میں پرنسپل کی آواز گونجی


سر مُجھے صفائی کا ایک موقع ملنا چاہیے۔۔۔۔۔۔

بنا نظریں اٹھائے نہایت ضبط سے بولا

۔

میں نے آپ کو پہلے ہی انفورم کیا تھا مسٹر شاد کے میرے لیے اس کالج کی ریپو ٹیشن سے بڑھ کر کچھ نہیں جو کے آپ کی وجہ سے اچھی خاصی خراب ہو چکی ہے۔۔۔اب میں آپ کے لیے کچھ نہیں کر سکتا۔۔۔۔۔۔

پرنسپل نے اُسے صاف جواب دے کر اس کی ریکویسٹ کو رد کر دیا ۔وہ ایکدم سے اپنی جگہ سے اٹھا اور شیشے کے دروازے کو زور سے دھکیل کر باہر نکلا۔۔۔۔۔۔۔۔


باہر نکلتے ہی اس کے تیز} قدموں کو بریک لگ گئے اس لڑکی کو سامنے دیکھ کر جس کی وجہ سے وہ آج بے گناہ ہو کر بھی رُسوا ہوا تھا۔۔۔۔

وہ اپنے کیے عمل کا ری ایکشن جاننے کے لیے پرنسپل کے آفس کی طرف آئی تھی لیکِن اب پروفیسر شاد کو سرخ آنکھوں میں نفرت لیے گھورتے دیکھ وہ خوف سے کانپ گئی

شاد ابراہیم قدم بڑھاتا اس کے نزدیک آکر رکا۔۔۔۔۔



 بہت غلط کیا تم نے۔۔۔۔۔۔۔

تمہاری وجہ سے میرا نام میرا کریئر سب خراب ہو گیا۔۔۔۔


وہ نفرت بھرے لہجے میں کہہ کر دانت بھینچے مزید قریب ہوا وہ تھوک نگلتے ہوئے پیچھے ہوئی


جو جھوٹا الزام لگا کر تم نے میری عزت مٹی میں ملائی ہے اب میں اس الزام کو حقیقت بناؤں گا۔۔۔۔۔۔۔۔جسٹ ویٹ اینڈ واچ۔۔۔۔۔۔۔

وہ سرد لہجے میں اُسے وارن کرتا اُس کے کندھے سے ٹکرا کر آگے نکل گیا اور وہ اپنی جگہ سن رہ گئی


∆∆∆∆∆∆∆∆

وہ شاپ سے باہر نکلی تو اپنی جلدبازی کی وجہ سے سامنے سے آتے کپل سے ٹکراتے ٹکراتے بچی ۔۔۔۔منہ کھول کر کچھ کہنے لگی تھی کے سامنے والے کے چہرے پر نظر پڑتے ہی شاک رہ گئی

چہرہ اور ڈریسنگ بدلا ہوا تھا لیکِن اتنا نہیں کے وہ اپنے شوہر کو نہ پہچانتی۔۔۔


تم۔۔۔۔یہاں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سامنے کھڑے شخص کو حیرت سے دیکھتی آہستہ سے بڑبڑائی 


تم یہاں اس لڑکی کے ساتھ کیا کر رہے ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔

اس کے ساتھ کھڑی لڑکی اور اس لڑکی کے اپنے شوہر کے بازو میں ڈالے ہاتھ کو ایک نظر دیکھ کر اُسے گھورتے ہوئے وہ فوراً اپنے لہجے پر آئی


Excuse me۔۔۔۔۔۔

اس لڑکے نے حیرت سے اُسے دیکھا ۔۔آنکھوں میں غیر شناسائی صاف نظر آرہی تھی۔۔۔


۔۔۔۔۔میں پچھلے پانچ مہینے سے ایک ایک پل گن کر تمہارا اِنتظار کر رہی ہوں ۔۔۔۔نا تمہارا فون لگ رہا ہے نہ تم نے کوئی رابطہ کیا ہے ۔۔۔۔تمہیں اندازہ بھی ہے کے میں کتنی پریشان ہوں۔۔۔۔۔۔اور تم یہاں۔۔۔۔۔


وہ کمر پر ہاتھ رکھے اس پر برس پڑی۔۔۔۔۔


Hold hold hold۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس نے فوراً ہاتھ اٹھا کر روکا ساتھ کھڑی لڑکی انجُو بھی حیرت سے دیکھ رہی تھی ۔۔


Who are you and what are you saying۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لب و لہجہ انگریزی تھا حیران کن تھا لیکِن تب بھی اُسے یقین تھا کے یہ اس کا شوہر ہی ہے


میں کون ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس کے پوچھنے پر وہ بھڑک اٹھی


بیوی ہوں میں تمہاری سمجھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور میرے ساتھ زیادہ ڈرامے مت کرو تم ۔۔ورنہ مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا


اُسے اُنگلی اٹھا کر سخت نظروں سے گھورا ۔۔ویسے بھی اس کا شوہر شرافت کی زبان کم ہی سمجھتا تھا سامنے والے کی پیشانی پر بے شمار بل پڑے


دیکھیے آپ کو کوئی مس انڈر سٹینڈنگ ہوئی ہے ۔۔۔۔آپ انہیں کوئی اور سمجھ رہی ہے ۔۔۔۔یہ میرے ہسبنڈ ہے دکش سنگھانیہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 انجو پہلی دفعہ بولی اور دکش کے مزید قریب ہو کر آگے سے اس کے شولڈر پر ہاتھ رکھا وہ اس کی طرف دیکھ کر مسکرایا جیسے اس کا سائیڈ لینا بہت اچھا لگا ہو۔۔


جب کے سامنے والی کا تو دِماغ ہی آؤٹ ھو گیا ہاتھ میں موجود شاپنگ بیگ کو زمین پر پٹخ کر ایک قدم اس کے نزدیک ہوئی


اب یہ لعنتی دکش سنگھانیہ کون ہے ۔۔۔۔۔۔نہیں بتا دو مجھے کِس لیول کی بے غیرتی کر رہے ہو اب تم اس لڑکی کے ساتھ مل کر ۔۔۔۔۔۔۔

وہ دانت پیستے ہوئے اس پر چینخ پڑی۔۔۔۔۔


۔کتنی خوبصورت تھی وہ لیکِن زبان ۔۔۔۔۔افف توبہ۔۔۔۔۔

انجو نے اُسے دیکھ کر سوچا


۔اور تم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

انجو کا ہاتھ اپنے شوہر کے شانے سے جھٹک کر اُسے گھورا


تم اس منہوس ٹھرکی آدمی کو جانتی نہیں تبھی اسے اپنا شوہر کہہ رہی ہو۔۔۔۔۔۔۔۔ورنہ مجھ سے پوچھو کے اس کی بیوی بننے کے لیے کونسا جگر چاہیے۔۔۔۔۔۔

اس نے انجو کو غصے سے کہتے ایک بار پھر دکش کو گھورا


بے بی آۓ تھنک یہ لڑکی پاگل ہے تبھی اس کا ہسبنڈ اسے چھوڑ کر بھاگ گیا ہے۔۔۔۔۔اسے اگنور کرو۔۔۔۔۔ ہمیں دیر ہو رہی ہے نہ ۔۔۔۔

وہ اُسے غصے سے دیکھتے ہوئے بولا وہ منہ کھولے اُسے دیکھنے لگی اور وہ دونوں آگے بڑھتے اس کے پہلے اس شخص کا گریبان پکڑ کر کھینچا


وائلڈ مین، لوفر،۔ٹھرکی۔۔۔ ۔۔۔تم نے مجھے پاگل کہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔سمجھتے کیا ہو تم اپنے آپکو۔۔۔۔۔۔۔۔۔


وہ غصّے سے اس کی نیلی آنکھوں میں دیکھتی بولی اس کا لہجہ اور آنکھیں ایکدم سے نم ہو گئے۔۔۔۔وہ اس سے ہر بات کی امید رکھتی تھی لیکن اس سفاکی کی نہیں کے وہ اُسے پہچاننے سے ہی انکار کر دے۔۔جب کے دکش نے چند پل حیران ہو کر زرو سے اُس کے ہاتھ جھٹکے


اپنی حد میں رہیں آپ۔۔۔۔۔۔۔شاید آپ کی انہیں حرکتوں کی وجہ سے آپ کے ہسبنڈ نے آپ کو چھوڑا ہے۔۔۔۔۔راستے چلتے کِسی کو بھی اپنا شوہر بنانے سے بہتر ہے آپ اپنی زبان کو صحیح طریقے سے استعمال کرنا سیکھ لیں۔۔۔۔۔۔۔۔

پہلی دفعہ اس کے لہجے میں شدید غصّہ اور بیزاری تھی ۔۔



Come baby۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ ساتھ کھڑی انجو کی کمر میں ہاتھ ڈال کر اُسے لیے آگے بڑھ گیا اور وہ حیرت سے گنگ دونوں کی پشت دیکھتی رہ گئی۔۔آنسُو ٹپ ٹپ گرنے لگے۔۔۔سکتا ختم ہونے کو تیار نہیں تھا


کیا ہوا یار۔۔۔تم رو کیوں رہی ہو۔۔۔۔۔۔۔

اُس کی سہیلی اُسے دیکھ کر جلدی سے اس کے پاس آئی اور اُسے روتے دیکھ حیران رہ گئی۔۔۔و رونے والوں میں سے نہیں رلانے والوں میں سے تھی۔۔۔


ریا۔۔۔۔۔۔۔۔وہ لڑکی اُسے اپنا ہسبنڈ کہہ رہی ہے۔۔۔۔۔

وہ خود کو دکش سنگھانیا بتا رہا ہے

مجھے پہچاننے سے انکار کر رہا ہے۔وہ ۔۔۔۔۔

وہ بدھواسوں کی طرح ادھر اُدھر دیکھنے لگی ریا کو اس کی فکر ہونے لگی


کون۔۔۔۔کس کے بارےمیں بات کر رہی ہو تم۔۔۔۔۔۔

ریا نے اس کے شانوں پر ہاتھ رکھے پوچھا


میں مانتی ہوں وہ مجھ سے شادی نہیں کرنا چاہتا تھا۔۔۔۔

میں نے اُسے فورس کیا تھا اس شادی کے لیے

ہماری کبھی آپس میں نہیں بنتی۔۔لیکِن۔۔۔


وہ اب بھی اپنی دھن میں بولے جا رہی تھی


لیکِن وہ ایسا نہیں کر سکتا میرے ساتھ۔۔۔۔۔۔

میں اُسے ایسا نہیں کرنے دوں گی ریا۔۔۔۔۔۔

وہ سر نفی میں ہلاتی اُسے دیکھنے لگی۔۔۔۔ریا کے ہاتھ اپنے بازو سے ہٹا کر کانچ کی دیوار سے نیچے جھانکا تو وہ آدمی گراؤنڈ فلور پر تھا وہ اپنے آنسُو صاف کرکے رونے والے تاثرات چہرے سے ہٹاتی نیچے چل دی 


ریا نے اس کی نظروں کے تعاقب میں نیچے انجو کو دکش کے ساتھ دیکھا تو اس کی پیشانی پر لکیریں اُبھری کے آخر اُس کی سہیلی دکش سنگھانيا کو اپنا شوہر کیوں کہہ رہی ہے۔۔

وہ بھی اس کے پیچھے نیچے چل دی


وہ دونوں مال سے باہر نکل رہے تھے جب پیچھے سے دکش کو ایک زرو دار لات پڑی۔۔۔اتنا اچانک حملا تھا کے وہ سنبھل نہیں پایا اور فرش پر منہ کے بل گرا انجو نے صدمے سے منہ پر ہاتھ رکھ لیے اور پیچھے دیکھا تو وہ پاگل لڑکی اپنے ہاتھ جھاڑتی ہُوئی مزے سے اُسے دیکھ رہی تھی

آس پاس کے لوگ اُسے دیکھ کر ہنس رہے تھے۔۔اور ریا پریشانی سے کچھ دوری پر رک گئی تھی


کیوں ہسبنڈ سائیں۔۔,۔۔۔۔۔کچھ یاد آیا

دکش نے زمین سے اٹھ کر اس کی جانب دیکھا تو وہ اپنی خوبصورت آنکھوں کو معصومیت سے جنبش دیتے ہوئے بولی انجو نے پہلی دفعہ اس لڑکی کو غصے سے دیکھا


دکش کا بھی چہره اور آنکھیں غصّے سے سرخ ہو گئے وہ ایکدم سے آگے بڑھا اور پوری قوت سے اپنا ہاتھ اُٹھایا ۔۔۔۔۔

اُس کا دل ایک دم سے رک گیا اور آنکھیں میچ لی

دکش کا ہاتھ اس کے چہرے کے ایک انچ دوری پر آکر رک گیا

اُس نے گھبرا کر آنکھیں کھولیں 

 دکش نے دانت بھینچے ہوئے اس ہاتھ کی مٹھی بنا کر واپس کھینچا اور اس کی جانب اُنگلی اٹھائی


لڑکی ہو اس لیے اپنے ہاتھ کو روک لیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن آئندہ مجھ سے بد تمیزی کی تو یہ لحاظ بھی نہیں کروں گا۔۔۔۔۔۔


وہ لہجے میں نفرت ہی نفرت لیے بولا وہ ساکت سی شکوہ کناں نظروں سے اُسے دیکھنے لگی۔۔۔اس کا شوہر بھول کر بھی کبھی اُس پر ہاتھ نہیں اٹھا سکتا تھا۔۔۔۔۔

وہ غصے سے ایک نظر اطراف کے تماشائیوں پر ڈالتا وہاں سے نکل گیا انجو جلدی سے اس کے پیچھے دوڑی کیوں کے غصّے میں وہ آپے سے باہر ہو جاتا تھا


لوگ اپنے اپنے راستے چل دیئے تھے جب کے وہ وہی کھڑی یہ سوچ رہی تھی کے کیا واقعی اس نے غلطی کر دی 

ریا کے پکارنے پر اس نے اس کی طرف دیکھا جو اس کے لئے بے حد پریشان تھی۔۔وہ اس کا ہاتھ تھامے اُسے باہر لے آئی تھی


مجھے لگتا ہے تجھے کوئی غلط فہمی ہو گئی ہے۔۔۔۔۔۔۔یہ تیرا ہسبنڈ کیسے ہو سکتا ہے۔۔۔یہ دکش سنگھانیه ہی ہے۔۔۔میں بہت پہلے سے جانتی ہوں اسے۔۔۔۔۔۔۔

ریا کی بات پر وہ حیرت سے اُسے دیکھنے لگی ۔۔۔


اسی سے تو میری فرینڈ انجو کی شادی ہونے والی ہے۔ ۔۔۔۔

۔۔۔۔

ریا نے بھی اُلجھے ہوئے انداز میں اُسے بتایا ہے جب کے اب اس نے شادی ہونے والی ہے بات پر زیادہ غور کیا۔۔۔۔۔۔



∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆



یہ لیجئے بھائی صاحب۔۔۔۔۔۔۔۔آپ کی امانت


اس نے پردے کی اونٹ سے جھانک کر دیکھا تو اس کا باپ سامنے کرسی پر ٹانگ پر ٹانگ جمائے بیٹھے شخص کے آگے جھکا لال کپڑے میں لپٹے پیسے اس کے آگے پیش کر رہا تھا

اس کی اماں ساتھ والی کرسی پر بیٹھی پان چباتی عورت کے پاس کھڑی پنکھا جھلا رہی تھی


پیسے پورے تو ہے نہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس آدمی نے پیسے ہاتھ سے تولتے ہوئے پوچھا فلک پردے کو نیچے کرکے سیدھی ہو گئی


معاف کرنا بھائی صاحب۔۔۔ایک۔۔۔ لاکھ کم ہے

اس کے باپ رحمت علی کی جھجھکتی اٹکتی آواز آئی 

وہاں سامنے بیٹھے شخص کے تاثرات پل میں بدلے اور اس نے پیسے رحمت کے اوپر پھینکے 


جب پورے پانچ لاکھ کی بات ہوئی تھی تو ایک لاکھ کم دینے کا مطلب کیا ہے۔۔۔۔۔۔ہمیں یہ بھاؤ تاؤ کا سودا منظور نہیں میاں ۔۔۔۔۔۔۔۔چلو جی یہاں سے۔۔۔۔۔

وہ ایک دم سے اٹھ کھڑا ہوا اور ساتھ بیٹھی اپنی بیوی کو بھی اشارہ کیا رحمت نے اس کے پیر پکڑ لیے



بھائی صاحب۔بھائ صاحب۔۔۔۔ میری بات سنیئے۔۔۔۔۔میں پورے پیسے دے دوں گا بس تھوڑا سا وقت دے دیجئے۔,۔۔۔۔۔ایک لاکھ میں شادی کے بعد تین دن کے اندر اندر آپ تک پہنچا دوں گا 

رحمت منتیں کرنے لگا تو وہ آدمی اس پر احسان کرتے ہوئے واپس بیٹھ گیا رحمت خدا کا شکر مناتا اس کے آگے ہاتھ بندھے کھڑے ہوا


اگر پیسے کا انتظام کرنے کے لئے وقت چاہیے تو ٹھیک ہے آرام سے انتظام کرو جب پیسے اجاۓ تب شادی ہو جاۓ گی ہمیں کوئی جلدی نہیں ہے۔۔۔۔

اس نے ذرا تحمل سے کہا لیکِن دونوں میاں بیوی پریشان ہو گئے


ایسا مت کہیے بھائی صاحب۔۔۔ساری تیاری ہو چُکی ہے۔۔۔خاندان بھر کو دعوت دے چُکا ہُوں۔۔اب شادی میں دیری ہوئی تو میری کیا عزت رہ جائے گی


وہ بے بس ہو کر بولا فلک نے اپنی نم ہوتی پلکوں کو جھپکا اس کی وجہ سے اس کے باپ کو کتنا مجبور ہونا پڑ گیا تھا لیکِن جہیز جو اب سماج کی روایت بن چکی تھی ہر بیٹی کے باپ کے نصیب میں یہ بے بسی لکھی تھی۔۔

لڑکی کے کردار اس کی صورت سیرت خوبیاں سب کچھ پیسے کے آگے بے نام تھا۔۔

ان پیسوں کے لئے اس کے باپ نے اپنا گھر تک گروی رکھ دیا تھا 

ایک اچھے پڑھے لکھے بینک میں نوکری کرنے والے کو اپنی بیٹی دینا اس کی خوش قسمتی تھی اور اس کے لیے وہ جی توڑ کوشش کر رہا تھا۔۔۔۔

لڑکے کے باپ نے اس کے سامنے ایک گاڑی کی مانگ رکھی تھی جس کی قیمت دس بارہ لاکھ تھی لیکن وہ اس پر احسان جتاتے ہوئے صرف چھ لاکھ ہی مانگ رہا تھا ۔۔

حلانکہ رشتا ہونے کے بعد سے اُن کی دعوتوں اور اب شادی کی تیاری میں اُن کی بڑی بڑی فرمائشوں پر وہ اور بھی بہت کچھ خرچ کر چکا تھا


اب بھی وہ اُن کی آو بھگت میں لگے تھے تاکہ اُنہیں کوئی شکائت نا ہو۔۔۔۔۔لڑکے کا باپ ماں اور ایک بارہ سال کی بچی اُن کے ساتھ آئی تھی۔۔۔فلک اندر کمرے میں بیٹھی تھی اور شمع چھوٹے سے باورچی خانے کے چولہے پر روٹیاں سینکتی اُن کی باتوں پر اندر سے آگ بگولا ہوئے جا رہی تھی

اچھا تھا کے اس کا بھائی گھر پر نہیں تھا اور اس پورے معاملے کی اس کو کوئی خبر نہیں تھی ورنہ اس کا غصّہ کافی تیز تھا


عزت کا اتنا پاس ہے تو اپنا کہا پورا کرنا چاہیے تھا آپکو۔۔۔ میرے بیٹے کے لیے تو دس لوگ ہاتھ میں لاکھوں لیے بیٹھے تھے پر ہم نے اچھی اچھی لڑکیوں کو چھوڑ کر آپ کی معمولی سی شکل والی بیٹی کو چنا اور اب آپ اپنی زبان سے ہی مکر رہے ہیں ۔۔۔بھئی واہ

لڑکے کی ماں نے ناگوری سے کہا


نا نہ بہن جی آپ غلط سمجھ رہی ہیں۔۔۔۔۔۔و شادی کے اتنے خرچے آگئے نا بس اس لیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فلک کی اماں نے بھی نرمی سے بات سمجھانا چاہا


خرچے ہم نے بھی کم نہیں کیے اپنے بیٹے پر۔۔۔۔۔۔۔۔پڑھا لکھا کر بڑا افسر بنایا ہے اُسے۔۔۔۔۔۔۔اب ایک گاڑی اگر آپ نے اپنی طرف سے دے دی تو کونسی بڑی بات ہوجائے گی ہم تو اپنے سیر سپاٹے کرنے کے لیے نہیں مانگ رہے آپکی بیٹی ہی عیش کریگی اس میں

اس عورت نے تنک کر جواب دیا 


دیکھو رحمت۔۔۔۔۔۔ ایک ہفتے بعد برات لے کر آئیگا میرا بیٹا۔اس کے ایک دن پہلے ایک لاکھ روپیے میرے ہاتھ میں آجانا چاہیے ورنہ برات نہیں آئے گی تیرے دروازے پر ۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ آدمی اُسے وارننگ دینے والے انداز میں کہہ کر کُرسی سے اٹھ گیا۔۔۔۔اس کی بیوی بھی اٹھ کر نخوت سے سر جھٹکتے ہوئے پیچھے چل دی دونوں میاں بیوی نے بے بسی سے ایک دوسرے کو دیکھا


مامی۔۔۔۔۔۔یہ ماموں نے آپ کیلئے دیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بارہ سالہ لڑکی اندر آئی اور فلک کو دیکھ کر ایک چٹھی اس کی طرف بڑھاتی ہوئی بولی فلک نے جھجھکتے ہوئے و کاغذ تھام لیا اور اپنے ہاتھ کی مٹھی میں دبا لیا لڑکی مسکرا کر واپس باہر بھاگی


اپنے بیٹے کے خرچے تو یوں گنوا رہی ہے جیسے ہم نے کہا تھا اُسے بیٹا پیدا کرنے کو۔۔۔۔۔۔۔

اور بیٹا اتنا ہی بڑا افسر ہے تو بھیک کیوں مانگ رہی ہے ہم سے خود اس کے پیسوں سے گاڑی خریدے نا


اُن کے جاتے ہی شمع باہر آکر پھٹ پڑی رحمت بھی اُن لوگوں کے ساتھ ہی باہر نکل گیا تھا اور اماں اس کے زوروں سے سنانے پر غصے سے گھورتی پاس آئی


بس کر جا ۔۔۔۔۔۔۔۔منہ کھول کر شروع ہو جاتی ہے ۔۔کتنی بار کہا ہے تو ان باتوں پر کان نا دھرا کر یہ بڑوں کی باتیں ہے ۔

وہ کرسیوں پر بچھے خوبصورت کپڑوں کو تہہ کرتی بولیں


امّاں یہ لوگ ذرا اچھے نہیں ہے۔۔۔آگے جا کر آپی کو بہت تنگ کرے گے۔۔۔۔۔۔

شمع نے پریشانی سے کہا فلک بھی باہر آکر سامان سمیٹنے میں ماں کی مدد کرنے لگی


اپنی بہن کے کان بھر کر اس کا دماغ خراب نہ کر چھوری۔۔۔لڑکے والے ایسے ہی ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔اُن بھلو نے تو بس چھ لاکھ مانگے ہے ورنہ تو دس لاکھ سے نیچے میں پوچھتے نہیں آجکل لڑکیوں کو۔۔۔۔۔۔۔

وہ ہاتھ روک کر غصے سے بولیں فلک نے بھی اُسے چپ ہونے کا اشارہ کیا 


لڑکی ڈھونڈنے نکلتے ہیں یا اپنے بیٹے کا سودا کرنا۔۔۔

شمع غصے سے بڑبڑایی اس کے برداشت سے یہ سب باہر تھا


اِس لیے کہتی تھی کے تجھے پڑھنے نا بھیجے۔۔۔۔۔ سکول جا کے یہ سب سیکھا ہے تونے ۔۔۔بڑوں سے ایسے منہ چلائے گی اب۔۔۔۔۔

امّاں نے غصے سے قدم اس کی طرف بڑھائے اور اُن کا تھپڑ گال پر۔پڑتا لیکِن فلک ایکدم بیچ میں آکر ہاتھ روک گئی


اماں۔۔۔۔۔۔۔۔

ہاتھ پکڑے ماں کو روکتی سر نفی میں ہلانے لگی


جانے دو نا اب نہیں کرے گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ جلدی سے بولی اور شمع کو خود سے لگا لیا جب کے اماں اب بھی شمع کے جھکے سر کو گھور رہی تھی


فلک کی شادی نپٹنے دے اس کے بعد تجھے بھی ٹھکانے لگاتی ہوں۔۔۔۔بہُت پر نکل آئے ہیں آجکل۔۔۔

اماں بڑبڑا کر وہاں سے ہٹی


تو چل میرے ساتھ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فلک اس کا ہاتھ پکڑ کر اندر کمرے میں لے آئی چھوٹا سا کمرہ جہاں سامان ہی سامان بھرا پڑا تھا اور ایک طرف چار پائی تھی ۔جہاں رات کو دونوں بہنیں سوتی تھی جب کے ارحم اور اس کے اماں ابا کا بستر باہر آنگن میں ہی لگتا تھا ۔۔۔۔۔۔

بڑے سے آنگن کی دیواریں کافی اونچی تھی اور مکمل چھت بھی ڈلی ہوئی تھی سوائے درمیان کے کچھ حصے کے ۔۔۔آنگن کے ایک کونے میں چھوٹا سا کنواں بھی موجودہ تھا۔۔۔۔۔۔


ایک چھوٹا سے کچن تھا اور ایک بس اُن دونوں کا روم ۔۔۔۔۔یہ چھوٹا سا گھر ہی اُن کی کل ملکیت تھی

رحمت ایک چھوٹی سی فیکٹری میں کام کرتا تھا حالت پہلے تو بہت تنگ رہے لیکِن ارحم نے جب سے کمانا شروع کیا کُچھ بہتری آگئی تھی

ارحم سب سے بڑا تھا اس سے چھوٹی فلک اور سب سے چھوٹی شمع۔۔۔۔


عمر میں دو سال چھوٹی بڑی تھیں لیکن دونوں بہنوں میں زمین آسمان کا فرق تھا۔فلك جتنی کم گو معصوم اور صابر تھی شمع اتنی ہی الٹ۔۔۔۔۔۔۔۔


دونوں بہنوں کو ہی گھر سے باہر نکلنے یا کِسی سے بات کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ لیکِن اپنے بھائی ارحم کی وجہ سے شمع نے دسویں تک تعلیم حاصل کرلی تھی جب کے فلک تو اسکول کی الف سے بھی بے خبر تھی۔۔


اُسے بس سر جھکا کر اقرار کرنا آتا تھا چاہے کوئی حکم ہو بات ہو یا کام ہو۔۔۔۔کوئی کچھ بھی کہے اُسے ماننا اس کا فرض تھا وہ پسند ہو یا نہیں۔۔۔

جب کے شمع غصّے میں اکثر اپنے دل کی بھڑاس نکال دیتی تھی


 روپ میں دونوں بہنیں برابر تھی فلک کا رنگ معمولی کم تھا لیکن نین نقش اور پر نور چہرہ اُسے بے حد خوبصورت بناتا تھا۔۔۔۔۔۔

ہر وقت سر پر دوپٹہ نماز کے انداز میں لپٹا ہوتا تھا اور پیشانی سنگ گھنے لمبے بال اس میں چھپائے رکھتی تھی۔۔۔


 فلک نے اس کا ہاتھ تھام کر اپنے ساتھ چار پائی پر بٹھایا اور کاغذ اس کی طرف بڑھایا


یہ کیا ہیں۔۔۔

شمع مسکراہٹ چھپاتے ہوئے پوچھنے لگی


اُن کی۔۔۔۔۔۔۔۔ چٹھی آئی ہے

وہ سر جھکائے معصومیت سے بولی


اوہو۔۔۔ساجن کا محبت بھرا خط آیا ہے فلک میڈم کے لیے

شمع چہک کر بولی اور وہ اُسے گھورنے کی ہمت بھی نہیں کر پائی


امّاں سئی کہتی ہے تم بہت بگڑ گئی ہو۔۔۔۔۔۔۔

خفگی سے کہتے ہوۓ منہ موڑا


اچھا اچھا اب ہمارے دولہا بھائ کی سن لو وہ کیا کہتے ہے۔۔۔۔۔۔۔

شمع نے پیار سے اس کا رخ اپنی جانب کیا اور کاغذ کھول کر پڑھنے لگی


ڈیئر فلک۔۔,۔۔۔۔۔

اس نے شروعات کرتے ہوئے ہنس کر فلک کی جانب دیکھا جس کے چہرے کا رنگ بدل رہا تھا

دو مہینے میں یہ تیسری چٹھی تھی

فلک کو اپنی بہن سے یہ سب سننا بہت عجیب محسوس ہوتا تھا لیکن وہ مجبور تھی پڑھنا آتا ہی نہیں تھا


جیسے جیسے شادی کا دن قریب آرہا ہے میرے دل کی بیتابی بڑھتی جا رہی ہے۔۔۔۔۔تمہیں دیکھنے کے لیے تم سے بات کرنے کے لیے۔۔,


۔۔۔۔آج بھی بے حد دل چاه رہا تھا تم سے بات کرنے کو لیکِن میں جانتا تھا تم فون پر نہیں آوگی اتنا شرماتی جو ہو۔۔۔۔۔ تبھی یہ خط بھیج رہا ہوں تا کہ تمہیں دل کا حال سنا کر مجھے کچھ سکون ملے۔۔۔

شمع بار بار اُسے دیکھتی ساتھ خط پڑھ رہی تھی۔۔

فلک نظریں جھکائے ناخن انگوٹھے سے رگڑنے لگی


بس ایک ہفتہ اور اس کے بعد تو اپنی ساری شرم و حیا کے ساتھ تمہیں میرے پاس ہی آنا ہے ۔۔اور پھر مجھ سے ریائت کی امید مت کرنا میں ایک پل بھی تمہیں دور نہیں جانے دوں گا۔۔۔۔۔۔اپنی باہوں میں قید کر کے سب سے چھپا دوں گا۔۔۔۔۔

شمع نے بمشکل مسکراہٹ روکی۔۔۔۔۔۔جب کے فلک کے دل کی دھڑکنیں بڑھنے لگی اس نے کاغذ شمع کے ہاتھ سے کھینچ لیا 


بس اب رہنے دو۔۔۔۔۔۔۔

وہ گھبرا کر بولی۔۔پتہ نہیں آگے کیا لکھا ہو


اوہو آپی پورا تو پڑھنے دو۔۔۔۔۔۔کچھ نہیں ہوتا

شمع نے جلد ہاتھ بڑھا کر چٹھی واپس کی۔۔وہ لب بھینچ کر رہ گئی


یہی سوچ رہی ہو نا کے کیسا بے صبر بندہ ہے 

کیا کروں یار جب سے تمہیں دیکھا ہے تمھارا چہرہ نظروں سے جاتا ہی نہیں۔۔۔۔۔بس گئی ہو تم میری آنکھوں میں۔۔۔۔۔۔۔

تم اپنی مہندی پر دونوں ہاتھوں میں میرا نام ضرور لکھوانا پھر دیکھنا اس کے گہرے رنگ سے تمہیں میری چاہت کا اندازہ ہوجائے گا۔۔۔۔۔۔

بہت جلد آرہا ہوں تمہیں لینے۔۔۔۔ھمیشہ کے لیے اپنا بنانے

تمہارا بننے۔,۔۔۔۔۔۔۔

آبان۔۔۔


شمع نے کاغذ سے نظریں ہٹا کر اپنی بہن کو دیکھا سنجیدگی سے۔۔۔۔۔۔


گھر والے اُن کے کیسے بھی ہو آپی لیکِن آبان بھائی کے یہ جذبات دیکھ کر دل پر سکون ہوجاتا ہے وہ بہت خوش رکھے گے تمھیں۔۔۔۔۔

شمع نے اُس کے پر نور چہرے کو دیکھ کر سنجیدگی سے کہا وہ مسکرا دی اور دونوں ہاتھ چہرے پر رکھ دیئے

شمع کھل کر ہنسی اور اُسے کے گلے لگ گئی


صدقے جاؤں اپنی پیاری بہن کے۔۔۔۔۔۔۔اللّٰہ بری نظر۔۔۔۔۔۔

وہ اس کے چہرے سے ہاتھ ہٹاتی اُسے خوشیوں کی دعا دینے لگی لیکن باہر سے آتی دھڑام کی آواز پر اس کی دعا ادھُوری رہ گئی

دونوں ہڑبڑا کے اٹھ کھڑی ہوئی اور دروازے تک آئی پردے کی اونٹ سے جھانک کر دیکھا تو سامنے آنگن کے دروازے سے کچھ لڑکے اندر گھس رہے تھے اور اُن کی امّاں گھبرائی سے پیچھے ہو کر کھڑی تھی



کہاں چھپا ہے سالے باہر نکل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اے بڑھیا بلا اپنے بیٹے کو۔۔۔۔۔۔

اُن میں سے ایک چلایا فلک گھبرا گئی جب کے شمع غصّے سے پردہ ہٹانے لگی


رک جا شمع باہر مت جا۔۔۔۔۔۔۔۔امّاں غصّہ کرے گی

فلک نے جلدی سے اُسے روکا ویسے بھی اُن کو کِسی کے سامنے آنے کی اجازت نہیں تھی اور اس وقت تو خطرہ صاف نظر آرہا تھا۔۔۔



وہ گھر پر نہیں ہے چھوٹے سرکار۔۔کہیں باہر گیا ہے

امّاں نے اُن میں سے ایک کو دیکھ کر کہا جو پیچھے کھڑا آنکھوں سے چشمہ ہٹا کر قدم آگے بڑھا رہا تھا



بچانے کی کوشش کر رہی ہے یہ سکندر اپنے بیٹے کو 

اندر ہی چھپ کر بیٹھا ہے وہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سامنے کھڑے لڑکے نے غصے سے اس کی بات کاٹ کر ارحم کو گالی دی


اندر جا کر دیکھو تم لوگ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سکندر نے دھیمے لہجہ میں ساتھ کھڑے دونوں کو اشارہ کیا


نہیں چھوٹے سرکار۔۔۔۔۔۔۔خدا کے واسطے۔۔۔۔۔

اماں نے اس کے آگے دونوں ہاتھ جوڑے سکندر نے اس کی جانب دیکھا تو وہ ایکدم چپ ہو گئی

اس کی گہری نیلی آنکھوں میں غصّہ دیکھ کر۔۔


۔۔۔۔۔۔۔۔تیرے بیٹے نے سکندر شاہ کو گالی دی ہے۔۔۔اور سکندر اپنے اوپر اُنگلی اٹھانے والے کا ہاتھ سلامت نہیں چھوڑتا۔۔۔۔۔۔۔۔

سکندر نے سرد لہجے میں اُسے باور کرایا اس کے آدمی جب گھر کے سامان کو اِدھر اُدھر کرتے آگے بڑھ کر اس کمرے کی طرف بڑھے تو اُن کے پردہ ہٹاتے ہی دونوں گھبرا کر جلدی سے باہر بھاگی۔۔۔۔۔۔


اماں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فلک جلدی سے اپنی ماں کے پیچھے هو گئی جب کے شمع بھی اپنی ماں کے ساتھ کھڑی گھبرائی سے اُن سب کو دیکھنے لگی 

سفید شرٹ اور بلیک جینس میں کھڑے اس شخص کو دیکھ کے وہ پل میں پہچان گئی کے وہ سکندر شاہ ہے وہاں کے زمیندار کا بیٹا۔۔۔۔۔۔۔جس کے بارے میں اس نے اپنی اسکول میں لڑکیوں سے سنا تھا۔۔

اس کے باپ بہادر شاہ کا پورے گاؤں پر راج چلتا تھا اس لیے بیٹا وہاں کے لوگوں کو اپنا غلام سمجھتا تھا۔۔۔۔

اس کے راستے سے گزرتے وقت کِسی کا اٹھا ہوا سر بھی وہ برداشت نہیں کرتا تھا۔۔


معاف کر دیجئے مالک میرا بیٹا نادان ہے۔۔۔۔لڑکوں کے بہکاوے میں آگیا ۔۔۔۔۔میں سمجھا دوں گی اُسے آئندہ آپ کے راستے نہیں آئیگا وہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اماں بے بسی سے اُسے منع کرنے لگی لیکِن وہ اب کے بہت غور سے اس لڑکی کو دیکھ رہا تھا جو اپنی ماں کے پیچھے چھپی خوف سے کانپ رہی تھی۔۔۔۔


اپنی اماں کے شولڈر کے پیچھے چھپنے کی کوشش کے باوجود اس کی آنکھوں سے اوپر تک چہرہ صاف نظر آرہا تھا

 اس کی لرزتی پلکیں اور آدھ کھلے سر سے نکل کر پیشانی پر بکھرتے بالوں کو سکندر بہت سکوت سے دیکھ رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔

وہ مسلسل زمیں پر نظریں گاڑے کھڑی تھی اور سکندر کی گہری نیلی آنکھیں اس کے مکمل چہرے کو دیکھنے کے لیے بیتاب سی اس پر ٹکی تھی


سکندر وہ یہاں نہیں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔

باہر آکر دونوں نے اُسے بتایا وہ خود کو سنبھال کر نظریں ہٹاتا کالے چشمے کو آنکھوں پر چڑھانے لگا


سمجھا دینا اُسے حویلی والوں سے پنگا لیگا تو بہُت پچتائے گا۔۔۔۔۔۔۔۔

سکندر نے اس کی اماں کو وارن کیا جب کے نظریں چشمے سے پیچھے اب بھی اس پر تھی جنہیں بمشکل ہٹاتا وہ پلٹ کر باہر نکلا

اماں نے جلدی سے بڑھ کر دروازہ بند کر دیا 


 

 ∆∆∆∆∆∆∆∆


گاؤں میں چناؤ ہونے جا رہے تھے جس میں حصّہ لینے کے لئے بہادر شاہ بہت جوش میں تھا۔۔۔۔۔اُسے اپنی ساری طاقت لگا کر جیت حاصل کرنی تھی ایسے میں جب پنچایت جمع ہوئی اور پارٹی نے اپنے نمائندوں کو سلیکٹ کرنا شروع کیا ارحم نے صاف طور پر بہادر شاہ اور اس کے بیٹے کے کرتوت بتا کر بہادر شاہ کو موقع نہ دینے کی ریکویسٹ کی ۔۔۔

حلانکہ سارا گاؤں ہی یہ چاہتا تھا سب ہی حویلی والوں کی منماني اورظلم سے پریشان تھے لیکِن کِسی میں کچھ کہنے کی ہمت نہیں تھی 

ارحم اتفاق سے وہاں موجود تھا اور جب بہادر شاہ کا نام لیا گیا تو وہ خاموش نہیں رہ پایا۔۔۔جب کے اس کی باتوں پر سکندر شاہ نے بہت مُشکل سے ضبط کیا وہ دونوں اکثر آپس میں اُلجھتے رہتے تھے لیکِن اس وقت سب کے سامنے سکندر کو اپنی اوراپنے باپ کی بے عزتی برداشت نہیں ہوئی


سکندر اُسی وقت اُسے جواب دینا چاہتا تھا لیکن اس کے باپ نے روک دیا تاکہ پارٹی کے افسروں کے سامنے کوئی واویلا نا ہو 

اور اب اسی بے عزتی کا بدلا لینے وہ اُن کے گھر تک آ پہنچا تھا

ارحم کے گھر آتے ہی اماں نے اچھی خاصی کلاس لگائی ہوئے تھی اور رحمت کو اس معاملے سے دور ہی رکھا ہواتھا وہ پہلے ہی شادی کی تیاریوں اور بچی ایک لاکھ کی رقم کو لے کر پریشان تھا


شرم نا آتی تجھے۔۔۔۔۔۔۔ایک حفتے بعد شادی ہے اور تو گھر میں اس طرح کے جھگڑے لا رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔جانتا ہے نا کیسے لوگ ہے وہ۔۔۔۔۔۔۔ کیسے دھڑلے سے گھر میں گھس آئے تھے۔۔۔۔ارے کچھ تو ہوش کر گھر میں دو دو جوان بہنیں ہیں تیری۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اُس کی ڈھتائی پر امّاں کا غصّہ مزید بڑھ گیا تھا


بس کر اماں۔۔۔۔۔۔۔۔تو کیا سوچتی ہے وہ مجھے ماں بہن کی گالی دے اور میں بیل کی طرح سر جُھکا کے سنتا رہوں۔۔۔۔اتنا بے غیرت نہیں ہے تیرا بیٹا۔۔۔۔۔۔

وہ جھنجھلا گیا ہاتھ سے نوالہ جھٹک کر کھانے سے اٹھ گیا


بیٹے یہ غیرت اور غرور نا ان زمینداروں پر اچھا لگے ہے ہم غریبوں کی بس مجبوری ہوتی ہے ۔۔۔۔اکلوتا ایک بیٹا ہے تو ہمارا۔۔۔۔۔۔اللّٰہ نا کرے مردودوں نے کچھ کر کرا دیا تو کیا بگاڑ لے گے ہم اُن کا۔۔۔۔

امّاں پریشان ہو کر بولی وہ پانی پی کر اپنی چار پائی پر آگیا


کچھ نہیں ہوتا اماں۔۔۔۔ہم ڈر کر چپ بیٹھ جاتے اس لیے ان کی ہمت بڑھتی ہے ۔۔۔۔۔۔و سکندر شاہ خود کو راجہ کی اولاد سمجھتا ہے۔۔۔۔پر میں نہیں ڈرتا اس سے۔۔۔۔۔۔


چار مسٹنڈو کے بغیر تو گھر سے نہیں نکلتا وہ۔۔۔۔ارے اتنا ہی مرد بنتا ہے تو میرے سامنے آئے نا میرے پیچھے میرے گھر میں گھس کے کیا ڈراتا ہے۔مجھے۔۔۔۔۔۔

وہ لا پرواہی سے کہتا لیٹ گیا اماں نے اُسے تاسف سے دیکھا وہ پورے گاؤں میں اکیلا شیر بنتا تھا۔۔

وہ غصے سے چل کر اس کی چار پائی کے پاس آئی اور اس کے آگے ہاتھ جوڑے


یہ دیکھ ۔۔۔۔ہاتھ جوڑ رہی ہوں تیرے سے۔۔۔۔۔بس کر جا۔۔۔میرا دل پہلے ہی حولہ ہوا ہے۔۔۔شادی میں کوئی ارچن آئی نا تو وہ سمدھی سارے سماج میں بے عزت کر دے گا تیرے باپ کو۔۔۔۔اوپر سے تو یہ نئی مصیبت سر ڈالنے کو لگا ہے

وہ غصے سے بولیں ارحم اٹھ بیٹھا اور اُن کے ہاتھ پکڑ کے انہیں چار پائی پر بٹھایا


اچھا اماں۔۔۔۔کچھ نہیں بول رہا میں۔۔۔۔تو ڈر مت۔۔۔۔سب خیر سے ہو جائےگا۔۔۔۔۔۔۔کل میں فلک اور شمع کو لے کر شہر جاتا ہوں۔۔۔۔ساری خریداری کروا دوں گا اُن کی۔۔۔۔۔

وہ اُنہیں تسلی دے کر بات بدلتے ہوئے بولا


بہنوں کو لے جانے کی کیا ضرورت ہے۔۔تو خود ہی جا کے لے آنا جو چاہئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ا اُنہوں نے انکار کرتے ہوئے کہا


کرنے دے اماں بعد میں کون دونوں سے اُن کی مرضی پوچھنے والا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔یہاں تو اُن کی پسند سے کچھ کرنے دے


وہ بولا تو لہجے میں بہنوں کے لیے بے پناہ محبت تھی امّاں کچھ بول نہیں پائی بس سر ہلا گئی

∆∆∆∆∆∆∆∆∆


چھوٹے سرکار۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ملازم دستک دے کر اندر آیا تو وہ صوفے پر بے سود پڑا تھا 

سامنے ٹیبل پر مہنگی شراب کی بوتل آدھے سے زیادہ خالی تھی۔۔۔۔ملازم نے جھجھکتے ہوئے اُسے مخاطب کیا اس نے نیلی نشے سے سُرخ ہوتی آنکھیں کھول کر اُسے دیکھا۔۔


چھوٹے سرکار۔۔۔۔۔۔۔شہر سے آپ کی مہمان آگئی ہے ۔۔۔۔۔۔۔

ملازم نے جلدی سے اُسے اطلاع دی ۔۔۔۔اس نے دو اُنگلیوں کی اشارے سے اندر بھیجنے کو کہا وہ سر ہلاتا باہر نکل گیا 



اٹھ کر بوتل سے شراب گلاس میں انڈیلنے لگا اس کے ہاتھوں میں ہلکی سی لرزش واضح تھی۔۔۔۔۔آج بہکنے کا سبب صرف شراب ہی نہیں بلکہ و ڈری سہمی قاتلانہ آنکھیں بھی تھی جو اس کے دل و دماغ سے ہٹنے کو تیار نہیں تھی۔۔۔۔۔۔۔


چند ہی منٹ میں ایک۔لڑکی میک اپ کی مہربانی سے اپنے چہرے اور شورٹ ڈریس میں اپنے بدن کی نمائش کرتی اندر آئی ۔۔۔۔۔۔۔

صوفے پر سفید شرٹ بلیک پینٹ میں نشے میں چور خود سے لا پرواہ بیٹھے سکندر پر نظر ڈال کر مسکراتے ہوئے دروازے کو لاک کیا


دروازے کی آواز پر اس نے اپنی آنکھیں نیم وا کرکے اُسے دیکھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور آنکھوں کو مزید کھولنے کی کوشش کی

اُس انجان لڑکی کی آنکھوں کو دیکھتا اُن ڈری سہمی نظروں کو اُن میں ڈھونڈنے لگا۔۔۔۔۔


اُس کے اس طرح دیکھنے پر وہ سرشار ہوتی مسکرا کر اپنا کلچ ٹیبل پر پھینک کر اس کے قریب آئی اور صوفے پر بیٹھتے ہوئے اس کے گلے میں باہیں ڈالے اس کے اوپر جھکنے لگی ۔۔۔۔۔۔۔و اُسے روکتا غور سے دیکھنے لگا

نشے میں وہ اس قدر بہکا ہوا تھا کے اس لڑکی میں اُسے فلک کا ادھورا سا عکس نظر آنے لگا 


تمہاری۔۔۔۔۔۔۔ آنکھیں۔۔۔۔۔۔

وہ لڑکھڑاتی خمار زدہ آواز میں کہتا جس کی آنکھوں کو دیکھنے لگا وہ اس تعریف پر بے حد خوش ہوئی ۔۔۔۔۔۔


افف۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ ایکدم سے پیچھے ہو کر صوفے پر گر گیا آنکھیں بند کر لی لبوں پر مدھم مسکراہٹ تھی


کیا ہوا ڈارلنگ۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ پوری اس کے اوپر جھکی شوخ نظروں سے اُسے دیکھتی شرٹ کے بٹنوں کو چھیڑنے لگی سکندر نے آنکھیں کھولیں اور ہنس کر اُسے دیکھا


مار دیا سرکار ۔۔۔ ان آنکھوں نے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سکندر شاہ کو مار دیا

لڑکھڑاتے لہجے اور بے خود انداز میں بڑبڑاتے ہوئے اس لڑکی کو اپنے بازؤں میں بھر کر کروٹ بدل گیا


∆∆∆∆∆∆∆∆


Comments